رومیوں 9 تا 11: خدا کی راہیں اِسرائیل کے لئے

 

1۔ پَولُس رسول اِس سے شروع کرتا ہے کہ وہ اپنی دعا کا بوجھ اپنی قوم کے لئے بتاتا ہے (1:9 تا 2)۔ اِس شفاعتی دعا کی حالت میں وہ آگے بھی اپنا پیغام جاری رکھتا ہے (1:10)۔ آخر میں وہ خدا کی تعریف سے اختتام کرتا ہے۔ رومیوں 9 تا 11 دعا اور تعریف کے محول میں لکھے گئے ہیں۔ اِس لئے ان کو اِس محول میں بھی سمجھنا چاہئے۔

 

2۔ اگر سرے اسرائیلی لوگ یسوع کا مسیح ہونا (5:9) تسلیم نہ کریں، تو یہ بات نہیں کہ خدا کا کلام باطل ہو گیا (6:9)۔ کیونکہ شروع ہی سے ابراہام یا اسرائیل کی پوری جسمانی نسل خدا کے فرزند نہ ٹھہری بلکہ وعدہ کے فرزند خدا کی نسل گنے جاتے ہیں (8:9)۔

3۔ جو وعدہ کا فرزند ہے یا نہیں خدا کے چناو کا فیصلہ ہے (11:9)۔

4۔ خدا کا چناو انسان کے اعمال پر مبنی نہیں ہے بلکہ خدا کے اپنے فضل پر ۔ انسان کے اعمال فضل کا اُلٹ ہیں، انسان کا ایمان فضل کا اُلٹ نہیں (12:9؛ 30:9 تا 21:10؛ 5:11 تا 6)۔

5۔ جب خدا اپنا فضل بخشتا ہے تو وہ ایک کو فضل دے سکتا ہے مثال کے طور پر یعقوب کو اور دوسرے کو نہیں مثال کے طور پر عیسَو کو (13:9)۔

6۔ انسان فضل کے حقدار نہیں ہے۔ اگر خدا کسی کو فضل نہ بخشے، تہ وہ بے انصافی نہیں کرتا (14:9 تا 21)۔

7۔ جب خدا فضل بخشتا ہے، تو یہ خدا کے رحم اور اُس کی محبت کا اظہار ہے (15:9 تا 16)۔

8۔ خدا کا فضل انسان پر منحصر نہیں ہے، بلکہ اِس پر کہ خدا اُس کو فضل بخشنا چاہتا ہے یا نہیں (16:9)۔

اِس کے برعکس خدا کا غضب انسان کے گناہوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے (22:9)۔

9۔ جب خدا کسی انسان کو سخت کر دیتا ہے، تو اُس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا ایک بے گناہ انسان کو گناہگار بناتا ہے بلکہ یہ انسان پہلے سے گناہگار تھا آدم کی نسل سے ہوتے ہوئے۔ جب خدا کسی انسان کو سخت کر دیتا ہے، تو خدا اُس کو اسکے گناہ کے حوالہ کر دیتا ہے اِس نتیجہ کے ساتھ کہ وہ توبہ نہ کرے (17:9 تا 18؛ 7:11 تا 10)۔

10۔ خدا اِس لئے کچھ انسانوں کو سخت کرتا ہے، کیونکہ وہ اپنا غضب اور اپنی قدرت ظاہر کرنا چاہتا ہے (17:9 تا 18 اور 22)۔

11۔ جب ہم اِس پر غور کرتے ہیں کہ خدا رومیوں 9 تا 11 کے مطابق کچھ لوگوں کو سخت کرتا ہے تو ہمیں یاد رکھنا ہے کہ رومیوں

9 تا 11 اسرائیل کے بارے میں ہے اور یہاں خدا کا سخت کرنا (الف) ایک مقصد کے ساتھ ہوتا ہے اور (ب) عارضی ہے۔

الف) کیونکہ اسرائیل کا ایک بڑا حصہ سخت کیا گیا تھا (1:11 تا 10)، اِس لئے غیر اسرائیلیوں کو نجات ملی۔ ابھی یہ سب کچھ ہو گیا تاکہ اِن اسرائیلیوں کو غَیرت آئے جب وہ غیر اسرائیلیوں کی نجات دیکھیں اور وہ بھی یسوع مسیح پر ایمان لانے سے نجات پائیں (11:11 تا 14)۔

ب) اسرائیل کا ایک حصہ صرف اُس وقت تک سخت رہیگا جب تک غیر اسرائیلی لوگوں کی معموری نجات میں داخل نہ ہوگی۔ اِس کے بعد تمام اسرائیل آنے والے مسیح کے وسیلہ سے نجات پائے گا (25:11 تا 27 اور 30 تا 32)۔

12۔ خدا اپنے غضب ظاہر کرنے میں بھی عادل ہے۔ اُس کے فیصلے راست اور درست ہیں (مکاشفہ 2:19)۔

13۔ خدا اسرائیلیوں اور غیر اسرائیلیوں کو دونوں کو ایک ہی نجات کے لئے اور ایک ہی جلال کے لئے بلاتا ہے (23:9 تا 26)۔

14۔ اگر خدا اسرائیل کے بڑے شمار میں سے صرف تھوڑوں کو بچاتا ہو، تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کمزور ہو گیا، بلکہ وہ غضب کے برتنوں پر بھی اپنی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ خدا اپنی بچانے کی قابلیت اِن لوگوں کے وسیلہ سے صاف ظاہر کرتا ہے جو اسرائیل میں سے بچتے ہیں (22:9 اور 27 تا 29)۔

15۔ رومیوں 6:9 تا 29 کا حوالہ ہمیں خدا کی عظمت اور قدرت پیش کرتا ہے اور سمجھاتا ہے کہ اسرائیل کی اکثریت کے بے ایمانی کے باوجود خدا کا کلام باطل نہ ہوا۔ خدا کمہار کی مانند ہے جس کا پورا اختیار مٹی پر ہے (21:9)۔

یہاں اِس مسئلہ پر کہ اسرائیلی یسوع مسیح پر ایمان نہ لائے زیادہ خدا کا کام سامنے رکھتے ہوئے غور کیا جاتا ہے۔

رومیوں 30:9 تا 21:10 کے حوالہ میں اِس ہی مسئلہ پر کہ اسرائیلی یسوع مسیح پر ایمان نہ لائے زیادہ اسرائیل کا کام سامنے رکھتے ہوئے غور کیا جاتا ہے۔ یہاں زیادہ انسانی نقطہ نظر ہے۔ دونوں حوالہ جات ایک ہی حقیقت کے دو پہلو پیش کرتے ہیں۔ دونوں ہمیں بھی پیش کرنا ہے نظر انداز نہیں کرنا: خدا کا کام ایک طرف اور انسان کی ذمہ داری دوسری طرف۔

یہاں خدا ہر وقت اسرائیل کا انتظار کرتا ہے (21:10)۔

16۔ بے ایمان اسرائیلی لوگوں کی بنیادی غلطی وہ ہے کہ وہ اپنی راست بازی اپنے اعمال سے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یسوع مسیح پر ایمان لانے سے نہیں۔ "اپنی راست بازی قائم کرنے کی کوشش کر کے وہ خدا کی راست بازی کے تابع نہ ہوئے " (30:9 تا 3:10)۔

17۔ شریعت کا مقصد اور نشانہ مسیح ہے۔ جو اُس پر ایمان لاتا ہے راست باز ٹھہرایا جاتا ہے (4:10)۔

18۔ راست بازی اور نجات صرف وہ حاصل کرتا ہے، جو دل سے ایمان رکھتا ہے کہ یسوع مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے اور زبان سے یسوع کے خداوند ہونے کا اقرار کرتا ہے (5:10 تا 11)۔

19۔ نجات پانے کا راستہ جو ایمان ہے سب کے لئے کھلا ہے یہودیوں اور یونانیوں کے لئے۔ سب کا خداوند اپنے ساب دعا کرنے والوں کے لئے فیاض ہے۔ کیونکہ جو کوئی خداوند کا نام لے گا نجات پائے گا (12:10 تا 13)۔

20۔ رومیوں 14:10 تا 15 سے پتہ چلتا ہے کہ صرف انجیل سننے والے اور یسوع پر بھروسہ رکھنے والے نجات پا سکتے ہیں۔ نجات کے انتظام میں یہ قدم شریک ہیں:

الف) یسوع کا نجات بخش کام تمام ہو گیا (رومیوں 21:3 تا 31)۔

ب) خدا انجیل کی منادی کرنے والوں کو بھیجتا ہے۔

ج) وہ انجیل کی منادی کرتے ہیں۔

د) لوگ انجیل سنتے ہیں۔

ہ) لوگ انجیل پر بھروسہ رکھتے ہیں۔

و) لوگ ایمان کے ساتھ خداوند کا نام لیتے ہیں جو اپنے سب دعا کرنے والوں کے لئے فیاض ہے کہ وہ ان کو نجات بخشے۔

ز) خداوند ایمان لانے والوں کو نجات بخشتا ہے۔

21۔ لیکن سارے اسرائیلی لوگ انجیل کے فرمان بردار نہ ہوئے اگرچہ تقریباً سب کو انجیل کی خبر ملی اسرائیل کے اندر یا باہر۔

وجہ یہ ہے: اسرائیل نے انجیل نہ سمجھی (2:10 تا 3 اور 16 تا 19) اور نہ سمجھنے کی وجہ سے خدا کے ہاتھ نہ پکڑے (21:10)۔

22۔ خدا دِن بھر اسرائیل کی طرف اپنے ہاتھ بڑ ہائے رہا۔ یہ سچی دعوت پیش کرتا ہے جعلی نہیں یعنی خدا اصل میں ٰاسرائیل کی توبہ چاہتا تھا۔ خدا کی دعوت انجیل کے وسیلہ سے فضل اور نجات حاصل کرنے کے لئے سچی تھی لیکن اسرائیل نے فضل کی راست بازی کی تلاش نہ کی کیونکہ وہ اپنی راست بازی قائم کرنے کی کوشش میں مصروف رہا (21:10 اور 2 تا 3)۔

23۔ کیونکہ اسرائیل نے خدا کی پہلی دعوت انجیل میں رد کی (رومیوں 16:1) اِس لئے خدا اسرائیل کو غیر اسرائیلی مسیحیوں سے غیرت دلاتا ہے تاکہ اسرائیلی غیر اسرائیلیوں کی توبہ اور نجات دیکھتے ہوئے خود بھی نجات حاصل کریں۔ اس لئے ساری اقوام کو شاگرد بنانا بھی اسرائیل کو نجات کی طرف لے جانے کا ایک وسیلہ ہے (19:10 تا 20؛ 11:11 تا 14)۔

24۔ خدا نے اپنی قوم کو رد نہ کیا۔ کیونکہ جس طرح ایلیاہ کے وقت 7000 فضل سے برگزیدہ باقی رہے اسی طرح آج کل بھی ایسے باقی ہیں جو فضل سے برگزیدہ ہیں اعمال سے نہیں (1:11 تا 6)۔ باقی اسرائیلی ان کے گناہوں کے جواب میں (9:11) سخت کِئے گئے

ہیں (7:11 تا 10)۔

25۔ لیکن پَولس رسول اِن ہی لوگوں کے بارے میں جو پہلے سخت کِئے گئے ہیں ایک سوال پوچھتا ہے: “کیا اُنہوں نے ایسی ٹھوکر کھائی کہ گر پڑیں؟ ہر گز نہیں!” (11:11)۔ اُن کے گرنے کے سبب سے غیر اسرائیلیوں کو نجات ملی۔ ابھی اسرائیلی لوگوں کے لئے بھی امید ہے کہ وہ توبہ کریں اور نجات حاصل کریں(11:11 اور 13 تا 14 اور 23 تا 24)۔

26۔ اگر اسرائیل کا عارضی گھٹنا باقی انسانیت کے لئے عالمگیر نجات حاصل کرنے کا موقع اور دولت بن گیا ہے تو یہ کیا دولت کا باعث ہوگا دنیا کے لئے جب پوری اسرائیلی قوم نجات پائے گی۔ جب اُن کا عارضی گھٹنا اور پیچھے کیا جانا خدا کے ساتھ دنیا کا میل ملاپ ہو گیا تو کیا اُن کا پھر مقبول ہو جانا مردوں میں سے زندگی نہ ہوگا؟ میں یہ وقت کے لحاظ سے سمجھتا ہوں: جب خدا اسرائیل کو پھر پورے طور پر قبول کرے گا تو قیامت کا روز ہوگا (12:11 اور 15 تا 16 اور 25 تا 27)۔

27۔ ایسے غیر اسرائیلی جو مسیح پر ایمان لائے ہیں اچھے زیتون میں پیوند ہو گئے ہیں۔ ایسے یہودی جو یسوع مسیح پر ایمان نہ لائے ڈالیاں ہیں جو اِس اچھے زیتون میں سے توڑی گئیں۔ یعنی ایماندار یہودی اور ایماندار غیر یہودی نجات کے ایک ہی بدن میں شریک ہیں اور یسوع مسیح پر ایمان لانے سے ایک ہیں۔ ایک انسان ایمان کے وسیلہ سے اِس نجات کے بدن میں شریک کیا جاتا ہے اور بے ایمانی کی وجہ سے اِس میں سے توڑا جاتا ہے (17:11 تا 24)۔

28۔ غیر اسرائیلی ایمان داروں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ بے ایمان اسرائیلیوں کے مقابلہ میں فخر نہ کریں اور مغرور نہ ہوں بلکہ خدا کا خوف کریں اور خدا کی مہربانی اور سختی کو دیکھیں۔ اگر یہودی بے ایمان نہ رہیں تو پھر پیوند کئے جائیں گے۔ اگر ایک ایماندار غیر اسرائیلی اپنا ایمان چھوڑ دے گا تو وہ بھی کاٹ ڈالا جائے گا (20:11 تا 24)۔

29۔ یسوع مسیح پر بھروسہ نہ رکھنے والے یہودی انجیل کے اِعتبار سے غیر یہودی ایمان داروں کی خاطر خدا کے دشمن ہیں لیکن چناؤ کے اعتبار سے باپ دادا کی خاطر خدا کے پیارے ہیں۔ باپ دادا ابرہام اور اضحاق اور یعقوب اور اُس کے بیٹے اور داؤد بھی ہیں۔ خدا کی نعمتیں اور بلاوا اُن کے لئے بے تبدیل ہے۔ اِس لئے اسرائیلی قوم کے لئے ایک مستقبل خدا کی محبت کے ماتحت ہے

(28:11 تا 29)۔

30۔ پہلے غیر اسرائیلی لوگ خدا کے نافرمان تھے مگر اب اسرائیلی لوگوں کی نافرمانی کے سبب سے غیر اسرائیلی لوگوں پر خدا کا رحم ہُؤا۔ اُسی طرح اب اسرائیلی لوگ بھی خدا کے رحم کو نہیں مانتے جو غیر اسرائیلی لوگوں پر ہؤا ہے تاکہ اُن اسرائیلی لوگوں پر اب بھی خدا کا رحم ہو (30:11 تا 31)۔

31۔ خدا کا آخری کلام اِس حوالہ میں اسرائیلی اور غیر اسرائیلی لوگوں کے بارے میں 32:11 ہے: خدا نے سب کو یعنی اسرائیلی اور غیر اسرائیلی لوگوں کو نافرمانی کے کمرہ میں گرفتار ہونے دیا (دیکھیں خدا کا کسی کو سخت کر دینا 18:9 تا 23؛ 1:11 تا 11) اِس لئے نہیں کہ وہ سب کو اِس کمرہ میں ختم کرے بلکہ اِس لئے تاکہ وہ دونوں پر رحم کرے ، اسرائیلی اور غیر اسرائیلیوں پر۔ بے شک سارے اپنے گناہوں کی خاطر اِس نافرمانی کے کمرہ میں اپنی خوشی سے داخل ہوئے لیکن خدا نے اپنی چابی کے وسیلہ سے یہ کمرہ صرف عارضی طور پر بند رکھا سزا کے لئے تاکہ وہ ٰآخر میں اُس کو کھولے اور اُن پر رحم کرے۔

32۔ خدا کی راہیں کیا ہی بے نشان ہیں! اُس کے فیصلے اسرائیلیوں اور غیر اسرائیلیوں کے بارے میں انسانی سمجھ سے باہر ہیں۔

اِس حوالہ کے آخر میں ایک رسول ہے جو حلیمی کے ساتھ خدا کی حمد کرتا ہے (33:11 تا 36)۔

33۔ ساری چیزیں جن کا ایک حصہ اسرائیل اور باقی انسانیت ہے خالق کے ہاتھ سے پیدا ہوئی ہیں اور اُس کے وسیلہ سے قائم رہتی ہیں اور اُس کی خدمت کے لئے حاضر ہیں۔ اِس لئے رومیوں 1 تا 11 اور 9 تا 11 کے ابواب خدا کی تمجید سے اختتام تک پہنچتے ہیں۔

 

اے دی لائنس، 2008